واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت قبلہ عالم خواجہ محمد زبیر

 

رحمتہ اللہ علیہ

 

آپ قیوم ثالث حضرت خواجہ محمد نقشبند   رحمتہ  اللہ  علیہ   کے پوتےاورخلیفہ اعظم تھے۔آپ کی ولادت باسعادت ۵ذیعقدہ ۱۰۹۳ہجری کو ہوئی۔ ابھی آپ صرف تیرہ ہی برس کے تھے کہ آپ کے والدگرامی شیخ عبدالعلی کا انتقال ہوگیا۔ اس لئے آپ کی پرورش حضرت خواجہ نقشبند ثانی نے کی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ قطب دوراں و قیوم زماں تھے۔ آپ کے شب و روز عبادت الٰہی میں اور خلق خداکوہدایت کرنےمیں صرف ہوتےتھے۔ آپ کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ زمانے کے بڑےبڑےعلماء اور امرا آپ کے متعقد تھے ۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو دین ودنیاکی دولت سےسرفرازفرمایاتھا۔جب بھی دولت کدہ سے باہر تشریف لاتےتو امراءشاہی اپنے دوشالےاور پگڑیاں راستے پر بچھادیتے تاکہ متبرک ہوجائیں اور آپ کے قدم مبارک زمین پر نہ پڑیں۔

حضرت شاہ غلام علی صاحب  رحمتہ  اللہ  علیہ   کےملفوظات درالمعارف میں آپ کےحالات میں لکھا ہے کہ آپ صلٰوۃ اوابین میں دس پارےقرآن مجید کے پڑھتے تھے۔ اس کے بعد مردوں کا حلقہ ہوتا تھااورآپ توجہ دیتےتھے۔ پھر  دولت خانہ تشریف   لےجاکر عورتوں کا حلقہ کرتے تھے۔ اور آدھی رات کوچند گھڑی آرام فرماکرتہجد کے لئے اٹھ بیٹھتے تھے۔ تہجد کی نماز میں چالیس مرتبہ یاساٹھ مرتبہ سورۃ یسین  پڑھتے تھے۔ بعدازاں چاشت کے وقت تک مرقبہ میں رہتے پھر مردوں کا حلقہ ہوتاتھااورآپ توجہ دیتے تھے۔ تھوڑی دیر قیلولہ فرماکر طویل قرآت کے ساتھ چاررکعت نماز فی الزوال پڑھتے تھے۔پھرختم خواجگان پڑھ کر ظہر کی نماز ادا کرتے تھے۔اس کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرکے کھانا نوش فرماتے تھے۔ رات دن میں یہی وقت حضرت کے کھانے کا تھا۔ بعدازنمازعصرمشکٰوۃشریف یا مکتوبات ربانی کا درس دیتے تھے۔ غرض کے تمام دن توجہ دینےاورہدایت خلق میں صرف کرتے تھے۔ٖٖٖٖ

ایک روز دہلی کے جامع مسجد کے نیچے سے آپ کی سواری نکلی۔ حضرت شاہ  گلشن   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے دیکھا کے ایک  شخص پالکی میں سوار ہےاور بہت سی پالکیاں اس کے پیچھے چلی جارہی ہیں اور مجمع کثیر ان پالکیوں کے ہمراہ ہے اورانوارالٰہی اس پالکی کے اس طرح محیط ہے کہ پالکی سے آسمان تک نور تاباں کا ایک تختہ معلوم ہوتا ہے۔ اور تمام گلی نورسےبھرگئی ہے۔ حضرت شاہ گلشن   رحمتہ  اللہ  علیہ   نےاپنے سرسےپرانی کملی اتارکراپنے مریدوں سےفرمایاکہ اس کوجلادو۔ خادموں نےاس کاسبب دریافت کیاتوفرمایاکہ اس امیر کی سواری میں ایسا نورہےکہ میں نے کبھی اپنی کملی میں مشاہدہ نہیں کیا۔ حالانکہ تیس سال سے اسی کملی میں ریاضت کررہاہوں۔ کسی نے کہایہ حضرت خواجہ زبیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   ہیں۔ فرمایا الحمداللہ کہ ہمارے پیر زادےہیں ہماری آبرو رہ گئی۔

آپ کا ایک کثیر العیال مرید اس قدر علیل ہوا کہ حالت نزع تک پہنچ گیا۔  آپ کو اس پر بہت رحم آیا اور اس کو اپنے ضمن میں لے لیا۔ جس سے اس کو شفاعِ کامل عطا ہوئی اور وہ مدت تک زندہ رہا۔ جس وقت آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے اسی وقت وہ شخص بھی فوت ہوگیا۔

ایک شخص آپ سے بیعت کرنےکےلئےگھرسےروانہ ہوا۔ راستےمیں اسےایک گھڑسوار ملااس نے قصد سفرپوچھا تو اس شخص نے جواب دیا کہ میں حضرت خواجہ محمدزبیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خدمت میں بیعت کرنےکےلئےجارہاہوں۔ گھڑسوار نیچےاترا اور کہا میں ہی خواجہ محمد زبیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   ہوں۔ وہ شخص بڑا خوش ہوا ۔ گھڑسوار نےاسےسلسلہ عالیہ  نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت کیااورساتھ اجازت بھی دیدی۔ اس شخص نےسوچا کہ میں اب تو سرہند شریف  کے نزدیک پہنچ گیا ہوں لہذہ کیوں نہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے روضہ مقدس کی زیارت بھی کرتاجاؤں۔ وہ شخص جب سرہند شریف پہنچاتو اس نے دیکھا کہ وہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا جو کسی کو دفن کرنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ اس شخص نے ہجوم میں موجود ایک شخص سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ حضرت خواجہ محمد زبیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   وصال  فرماگئے ہیں۔ اس شخص نے آگے بڑھ کر جب زیارت کی تو وہی شکل مبارک تھی جس نے اسے راستے میں بیعت کیاتھا۔

آپ کےایک منظورنظرمرید محمد عادل اکبرآبادی فرماتے ہیں کہ شاہ جہان آباد(دہلی) جاتے ہوئے دوران راہ لٹیروں سے سامنا ہوگیا۔ ایک نے مجھ پر کمند پھینکنا چاہی۔ میں نے گھبراکر آپ سے التجاکی آپ نے ظاہر ہوکر انہیں ڈانٹااوروہ بندروں کی طرح بھاگ گئے۔

اسی طرح آپ کے مریدخاص شاہ مکین  رحمتہ  اللہ  علیہ   بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں میں مکہ معظمہ مقیم تھا تو مجھے آپ کے دیدار کا بےحداشتیاق ہوا۔ میں بیت اللہ شریف کے طواف سے دل کو تسلی دیتا مگر اطمینان نہ ہوتا۔ اسی حالت اضطراب میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ بھی میرےساتھ طواف فرمارہے ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر قدم بوسی کرناچاہی تو آپ نظروں سے غائب ہوگئے۔ میں واپس اپنی جگہ پہنچا توپھرآپ کو طواف کرتے ہوئے دیکھا۔میں دوبارہ آگےبڑھاتوآپ پھر غائب ہوگئے۔اس طرح کئی بار ایسا ہوا۔ میرے علاوہ بہت سے لوگوں نے بھی آپ کوطواف کرتےہوئےدیکھا۔

حضرت خواجہ محمدزبیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے خلفا بہت زیادہ مشہور ہیں۔ جن میں خاص  کرحضرت خواجہ ضیااللہ نقشبندی  رحمتہ  اللہ  علیہ   جن کے خلفہ میں حضرت شاہ محمد آفاق  رحمتہ  اللہ  علیہ   ہیں۔پھر حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب  رحمتہ  اللہ  علیہ   جن کے فرزندوخلیفہ حضرت خواجہ میردرددہلوی  رحمتہ  اللہ  علیہ   ہوئے۔ اور اسی طرح خواجہ عبدالعدل  رحمتہ  اللہ  علیہ   جن کے خلیفہ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی  رحمتہ  اللہ  علیہ   مترجم قرآن و فرزند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی  رحمتہ  اللہ  علیہ  ۔

آپ۴ ذیعقدہ ۱۱۵۲ ہجری کو دہلی میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے جہاں سےآپ کاجسدخاکی سرہند لاکر سپردخاک کردیا گیا۔